Table of contents
Tips for story writing in an exam
9. A rotten apple among fresh ones
13. The woodcutter and three axes
14. The hen that laid golden eggs
16. The shepherd boy
Elements of a story
کہانی مختلف کرداروں کے حالات و واقعات کا ایسا سلسلہ ہے جو کہیں نہ کہیں جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اچھی کہانی میں مندرجہ ذیل اجزا یا elements موجود ہوتے ہیں۔
Character یا کردار:
یہ کوئی شخص یا جانور یا کوئی اور چیزیں ہوتی ہیں جو کہانی میں ہونے والے مختلف کام سرانجام دیتی ہیں۔ کہانی میں سارا action کردار ادا کرتے ہیں۔
Setting یا منظر یا ماحول:
کہانی جس وقت میں اور جس جگہ پر واقع ہوتی ہے انہیں کہانی کا منظر یا کہانی کی setting کہتے ہیں۔ setting کو اچھی طرح واضح کرنے کے لیے مصنفین زمینی منظر، عمارات، آب و ہوا، موسم وغیرہ کی تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔
Plot یا سلسلہ واقعات:
کوئی بھی کہانی مختلف واقعات کے ملنے سے بنتی ہے۔ ان سب واقعات کے سلسلے کو plot کہتے ہیں۔
Conflict یا تنازع:
عام طور پر کہانی میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے جس کے حل کی طرف کہانی بڑھتی ہے۔ اس مسئلے کو conflict کہتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار عموماً کسی دوسرے کردار، معاشرے، فطری طاقت مثلاً طوفان، سیلاب وغیرہ یا اپنے ہی کسی جذبے یا مسئلے مثلاً احساسات، نفرت، بیماری وغیرہ کے خلاف لڑ رہا ہوتا ہے۔
Theme یا مرکزی خیال:
ہر کہانی کسی نہ کسی بات پر ہمارا یقین پختہ کرتی ہے۔ اس بات کو theme کہتے ہیں۔ یہی وہ نتیجہ ہوتا ہے جو کوئی کہانی پڑھ یا سن کر ہم اخذ کرتے ہیں۔
کہانی کے elements کو واقعات کی مدد سے جوڑ کر کہانی لکھی جا سکتی ہے۔ کسی کہانی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
Beginning یا آغاز:
اس حصے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ conflict شروع کس طرح ہوا اور کس ماحول میں ہوا۔ کہانی کا آغاز setting یا characterization سے کہا جا سکتا ہے، مثلاً:
It was a hot summer noon. There was nobody in the street.
(setting سے آغاز کیا گیا ہے۔)
Once there lived a dog in a village. The dog always felt hungry.
(characterization سے آغاز کیا گیا ہے۔)
آغاز سے کہانی وسط کی طرف بڑھتی ہے۔
Middle یعنی وسط یا درمیان:
اس حصے کے اختتام تک conflict واضح ہو جاتا ہے، مثلاً:
It was a hot summer day. A hungry fox reached a hanging vine of grapes. His mouth watered.
Ending یا اختتام:
کہانی کے آخر میں conflict ختم ہو جاتا ہے اور پڑھنے والے کے ذہن میں مخصوص جذبات پیدا ہوتے ہیں، مثلاً اوپر دیے گئے وسط، آغاز کے بعد کہانی یوں بڑھائی جا سکتی ہے۔
He resorted to all his arts but could not reach the grapes. He went away saying, ‘The grapes are sour.’
Tips for story writing in an exam
امتحان میں کہانی لکھتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خاص طور پر دھیان رکھیں:
کہانی کے تمام اہم characters کا کہانی میں واضح پتہ چلنا چاہیے۔ انہیں ٹھیک طرح سے بیان کریں۔
کہانی کی setting میں وقت اور مقام خصوصاً واضح ہوں۔
کہانی کا plot مربوط ہو۔ واقعات کی ترتیب درست ہو۔ ایک واقعے یا خیال سے دوسرا واقعہ اخذ ہو۔ واقعات میں تبدیلی واضح ہو۔ معلوم ہو کہ کہانی میں کون کون سے موڑ آئے ہیں۔
کہانی کا title یا عنوان کہانی سے متعلقہ ہو۔ اس سے کہانی کا سیاق و سباق سمجھنے میں مدد ملے۔
ان باتوں سے جزوی تعلق ہوا تو نمبر کم دیے جائیں گے اور اگر عنوان بالکل متعلقہ نہ ہو یا اس سے سیاق و سباق بالکل واضح نہ ہو تو اس حصے کا کوئی نمبر نہیں دیا جاتا۔
کہانی کی تفصیلات تخلیقی صلاحیت کو واضح کرتی ہوں۔ کہانی ایسی ہو کہ اس میں دلچسپی برقرار رہے۔ طالب علم کو چاہیے کہ اپنے تخیل سے کام لے۔
اگر کسی element میں اوپر دی گئی تفصیلات بالکل موجود نہ ہوں تو امتحان میں اس کے نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔ اگر کم تفصیلات ہوں یا واضح نہ ہوں تو کم نمبر دیے جاتے ہیں۔
punctuation, grammar, spelling اور capitalization کی کسی بھی طرح کی غلطیاں کرنے پر نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔
اب آپ نمونے کے طور پر چند کہانیاں پڑھیں گے۔
1. A clever crow
It was a hot summer day. A thirsty crow was searching for water. He reached a garden. There, he saw a vase of water. He tried to push his head into the vase. The neck of the vase was very narrow. His beak could not reach the water. He tried to push the vase down, but it was cumbersome. He became very sad. Suddenly, he saw some pebbles near there. A plan came to his mind. He dropped some pebbles one by one into the vase. The water in the vase rose to its edge. He drank it and flew away happily.
Morals:
Work hard, you will succeed.
Necessity is the mother of invention.
Where there is a will there is a way
ایک چالاک کوّا
یہ گرمیوں کے موسم کا سخت گرمی والا کوئی دن تھا۔ ایک پیاسا کوّا پانی کی تلاش میں تھا۔ وہ ایک باغ میں پہنچا۔ وہاں اُس نے پانی والی ایک صراحی دیکھی۔ اُس نے اپنا سر اُس صراحی میں گھُسانے کی کوشش کی۔ صراحی کی گردن بہت تنگ تھی۔ اُس کی چونچ پانی تک نہ پہنچ سکی۔ اُس نے صراحی کو دھکا دے کر نیچے گرانے کی کوشش کی مگر یہ بہت بھاری تھی۔ وہ بہت افسردہ ہو گیا۔ اچانک اس کی نظر وہاں قریب ہی کچھ کنکریوں پر پڑی۔ اس کے ذہن میں ایک منصوبہ آیا۔ اس نے ایک ایک کر کے کچھ کنکریاں صراحی میں ٹپکائیں۔ صراحی کے اندر کا پانی اوپر کنارے پر آ گیا۔ اُس نے اُسے پیا اور خوشی خوشی اڑ گیا۔
اخلاقی اسباق:
محنت کریں، کامیابی آپ کی ہو گی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
۔جہاں چاہ وہاں راہ
2. The dog and his reflection
Once there lived a dog in town. One afternoon he was very hungry. Fortunately, he got a big juicy bone from a butcher’s shop. He took the bone and ran away to eat it alone. He reached the bridge of a river in his way. He saw his own reflection in the water. He thought it was another dog with a big juicy bone in his mouth. His mouth watered and he thought of snatching that bone from him. He growled at the dog in the water. The reflection also growled back. The dog opened his mouth to bark on the dog in the water and the bone fell into the river. The greedy dog remained as much hungry as before.
Moral: Greed is a curse.
کتا اور اس کا عکس
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شہر میں کوئی کتا رہتا تھا۔ ایک سہ پہر اسے بہت بھوک لگی۔ خوش قسمتی سے اسے قصاب کی دکان سے رس بھری ہڈی مل گئی۔ اس نے ہڈی لی اور اسے تنہا کھانے کے لئے دوڑ گیا۔ اپنے رستے میں وہ دریا کے پل پر پہنچا۔ اس نے اپنا ہی عکس پانی میں دیکھا اور اسے رس بھری ہڈی لیے کوئی دوسرا کتا سمجھا۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے اس سے وہ ہڈی چھین لینے کا سوچا۔ وہ پانی میں موجود کتے پر غرایا۔ عکس بھی جواباً غرایا۔ کتے نے پانی میں موجود کتے پر بھونکنے کے لئے اپنا منہ کھولا اور ہڈی دریا میں جا گری۔ بھوکا کتا پہلے کی طرح بھوکا ہی رہا۔
اخلاقی سبق: لالچ بری بلا ہے۔
3. The hungry fox and grapes
Once, a hungry fox went into a garden. He saw some vines on the garden wall. The sight of ripe grapes watered his mouth. He tried to pluck some bunches. He jumped again and again but failed every time. At last, he went away saying, ‘The grapes are sour. I cannot eat them. They will destroy my health.’
Moral: Grapes are sour. (When we fail to get a thing, we find faults with it.)
ایک بھوکا لومڑ اور انگوروں کی بیل
ایک دفعہ ایک بھوکا لومڑ کسی باغ میں گیا۔ اس نے باغ کی دیوار پر کچھ بیلیں دیکھیں۔ پکے ہوئے انگور دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آ گیا۔ اس نے کچھ گُچھے توڑنے کی کوشش کی۔ اس نے بار بار چھلانگیں لگائیں مگر ہر بار ناکام رہا۔ آخر کار وہ یہ کہتے ہوئے چل نکلا کہ ’’یہ انگور کھٹے ہیں۔ میں انہیں نہیں کھا سکتا۔ یہ تو میری صحت برباد کر دیں گے۔‘‘
اخلاقی سبق: انگور کھٹے ہیں۔ (جب ہم کسی چیز کو حاصل نہیں کر پاتے تو ہم اس میں خامیاں نکالنے لگ جاتے ہیں۔)
4. The hungry fox and food
It was deep mid-winter. A fox was starving. ‘Where am I going to find something to eat?’ he said to himself. As he passed a big oak tree, his nose twitched. He could smell something delicious. Inside a hollow in the trunk of a tree, a shepherd had left some bread and meat. The fox jumped to pounce upon the food but could not get there. He jumped again and again but all in vain. ‘Tee-hee-hee,’ laughed a passing bee. ‘You’ll just have to jump a few times again to get it.’ And by the time he had jumped some more times, he had got hungrier than before! He went away saying, ‘The food has gone bad. It’s not worth eating.’
Moral: Grapes are sour. (When we fail to get a thing, we find faults with it.)
ایک بھوکا لومڑ اور کھانا
یہ سردیوں کا وسط تھا۔ ایک لومڑ بہت ہی بھوکا تھا۔ ’’مجھے کچھ کھانے کو کہاں مل سکتا ہے؟‘‘ وہ اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے بولا۔ جیسے ہی وہ ایک بڑے سے شاہ بلوط کے درخت کے پاس سے گزرا تو اس کی ناک میں جھرجھری آئی۔ اسے کسی مزے دار چیز کی خوشبو محسوس ہوئی۔ درخت کے تنے کی کھوہ میں کوئی گڈریا کچھ بریڈ اور گوشت چھوڑ گیا تھا۔ کھانے پر ہاتھ ڈالنے کے لئے لومڑ نے چھلانگ لگائی لیکن وہاں تک نہ پہنچ پایا۔ اس نے بار بار چھلانگیں لگائیں مگر سب بے کار گیا۔ ’’ہی ہی ہی،‘‘ پاس سے گزرتے ہوئے ایک مکھی ہنسنے لگی۔ ’’اسے حاصل کرنے کے لئے آپ کو بس چند بار اور چھلانگیں لگانا ہوں گی۔‘‘ اور جب وہ کچھ مزید چھلانگیں لگا چکا تو اس کی بھوک پہلے سے بھی بڑھ گئی! وہ یہ کہتا ہوا چل دیا کہ ’’کھانا باسی ہے۔ یہ کھانے کے لائق نہیں۔‘‘
اخلاقی سبق: انگور کھٹے ہیں۔ (جب ہم کسی چیز کو حاصل نہ کر سکیں تو اس میں خامیاں نکالتے ہیں۔)
5. A spider and a fly
Once a spider was too hungry because he had eaten nothing for days. He saw a fly sitting next to his cobweb. He invited her to his home. The fly replied, ‘I’m sorry, I won’t come. You are infamous for entrapping insects.’ ‘Okay,’ said the spider. He started a casual conversation with her. In the meantime, he said, ‘I’m a fan of yours. When you fly, your buzz sounds so musical. You move your feet so gently like those of a dancer. Your wings sparkle.’ His appreciation moved the fly. She had changed her mind about the spider. The spider once again invited her to his home. He said, ‘I would really appreciate it if you visit my home sometime.’ ‘Why ever if it’s possible now,’ said the fly, and flew to the spider’s web. The clever spider entangled her and ate her up.
Moral: Don’t be fooled by flattery.
مکڑا اور مکھی
ایک دفعہ ایک مکڑا بہت ہی بھوکا تھا کیوں کہ کئی دنوں سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اپنے جالے کے قریب اس نے ایک مکھی کو بیٹھے دیکھا۔ اس نے مکھی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ مکھی نے جواب دیا، ’’معذرت چاہتی ہوں، میں نہ آؤں گی۔ کیڑے مکوڑوں کو پھانسنے کے حوالے سے آپ کی شہرت اچھی نہیں ہے۔‘‘ مکڑا بولا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔ اس نے اس (مکھی) کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو شروع کر دی۔ اسی دوران وہ بولا، ’’میں بھی آپ کے پرستاروں میں شامل ہوں۔ آپ جب اڑتی ہیں تو آپ کی بھنبھناہٹ سے موسیقی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کس مہارت سے ایک رقاصہ کی طرح اپنے پیروں کو ہلاتی ہیں۔ آپ کے پر چمکتے ہیں۔‘‘ ان تعریفوں سے مکھی بہت متاثر ہوئی۔ مکڑے کے بارے میں اس کے خیالات بدل گئے۔ مکڑے نے ایک بار پھر اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دینے کے لیے کہا کہ ’’اگر آپ کبھی چند لمحوں کے لیے میرے گھر آئیں تو مجھے بہت ہی اچھا لگے گا۔‘‘ مکھی بولی، ’’جب ابھی ممکن ہے تو پھر کبھی کیوں۔‘‘ اور مکڑے کے جالے کی طرف اڑ گئی۔ چالاک مکڑے نے اسے پھندے میں پھنسایا اور کھا گیا۔
اخلاقی سبق: خوشامد کے دھوکے میں کبھی مت آئیں۔ / خوشامد سے بے وقوف نہ بنیں۔
6. The hare and the tortoise
A hare and a tortoise lived in the woods with all their animal friends. The hare loved hopping and running fast. He always boasted that he was the best and the fastest in the woods. The other animals admitted that the hare was fast. But they thought that his boasting was annoying. The tortoise decided to do something about it. He challenged the hare to run a race.
‘Silly boy,’ bragged the hare.
Finally, the day agreed upon for the race arrived. All the animals were there on the track. A long track across the woods was decided. The race started. The tortoise started very slowly, but the hare was invisible literally in the blink of an eye.
On his way, the hare decided to have a rest for a short time and start racing again. Soon he fell asleep, deep asleep. The tortoise passed by the hare and kept crawling as fast as he could. Finally, he reached the destination. Meanwhile, the hare woke up and ran fast, as fast as he could. He wanted to reach the destination soon. However, he was ashamed to find the tortoise talking with other animals there.
Moral: Slow and steady wins the race.
کچھوا اور خرگوش
ایک خرگوش اور کچھوا باقی تمام جانوروں کے ساتھ دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ خرگوش کو چھلانگیں لگانا اور تیز دوڑنا بہت پسند تھا۔ وہ ہمیشہ شیخی بگھارتا کہ وہ جنگل میں سب سے اچھا اور تیز ترین ہے۔ دوسرے جانور تسلیم کرتے کہ خرگوش تیز رفتار ہے۔ لیکن وہ سوچتے کہ یہ شیخی بگھارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ کچھوے نے سوچا کہ وہ ہی اس کا کچھ کرے گا۔ اس نے خرگوش کو دوڑ لگانے کا چیلنج دے دیا۔
’’احمق لڑکا،‘‘ خرگوش شیخی سے بولا۔
بالآخر دوڑ کے لئے طے شدہ دن آ پہنچا۔ تمام جانور دوڑ کے رستے پر آ گئے۔ جنگل سے پار ایک لمبے رستے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوڑ شروع ہو گئی۔ کچھوے نے بہت آہستہ چلنا شروع کر دیا لیکن خرگوش تو واقعی پلک جھپکنے کی دیر میں آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
رستے میں خرگوش نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے اور پھر دوبارہ دوڑ شروع کر دی جائے۔ جلد ہی اسے نیند آ گئی، گہری نیند۔ کچھوا خرگوش کے پاس سے گزر گیا اور اس سے جتنی تیز ہو سکا رینگتا ہی رہا۔ آخر کار وہ منزل تک پہنچ گیا۔ خرگوش جاگا اور منزل تک جلد پہنچنے کے لئے تیز دوڑا، اتنا تیز جتنا وہ دوڑ سکتا تھا، لیکن وہاں کچھوے کو دوسرے جانوروں کے ساتھ باتیں کرتا پا کر بہت شرمندہ ہوا۔
اخلاقی اسباق:
سہج پکے سو میٹھا ہو۔
آہستہ مگر مستقل چلنے والا ہی دوڑ جیتتا ہے۔ (آپ مستقل مزاجی سے تھوڑا تھوڑا کر کے بھی اپنا کام پورا کر سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ آپ تیزی کریں اور کام پورا نہ کریں۔)
7. A foolish stag
Once a stag saw his reflection in water. He liked his beautiful horns but hated his weak thin legs. Just that moment, he saw some hounds running towards himself. The stag ran as fast as he could to save his life. Soon he was about to escape the hounds. Unfortunately, his horns got entangled in a thick bush. All his attempts to release the horns went fruitless. The hounds soon reached there. They tore him to pieces. Now the stag understood that his thin ugly legs were saving him but his beautiful horns became the cause of his death.
Morals:
All that glitters is not gold.
There is nothing useless in the world.
Pride hath a fall.
Don’t judge a book by its cover.
Appearances can often be deceptive.
بے وقوف بارہ سنگھا
ایک بار ایک بارہ سنگھے نے اپنا عکس پانی میں دیکھا۔ اسے اپنے خوب صورت سینگ بہت پسند آئے لیکن اپنی کمزور پتلی ٹانگوں سے اسے نفرت سی ہو گئی۔ اسی لمحے اسے اپنی طرف دوڑتے ہوئے کچھ شکاری کتے دکھائی دیے۔ اپنی جان بچانے کے لئے بارہ سنگھے سے جتنا بن پڑا وہ تیز دوڑا۔ جلد ہی وہ شکاری کتوں سے بچ نکلنے والا تھا۔ بدقسمتی سے اس کے سینگ ایک گھنی جھاڑی میں پھنس گئے۔ سینگ چھڑانے کی اس کی تمام تر کوششیں بے سود گئیں۔ جلد ہی شکاری کتے وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نے اسے چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اب بارہ سنگھے کو سمجھ آئی کہ اس کی بد صورت پتلی ٹانگیں اسے بچا رہی تھیں لیکن اس کے خوب صورت سینگ ہی اس کی موت کی وجہ بن گئے۔
اخلاقی اسباق:
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔
دنیا میں کچھ بھی بے کار نہیں ہے۔/نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں۔
غرور کا سر نیچا۔
کتاب کی جلد دیکھ کر اس کا مضمون نہ بھانپیں۔
کبھی ظاہری صورت پر نہ جاؤ۔
8. The lion and the mouse
Once there lived a fearful lion in a forest. On a winter afternoon, he was taking a sunbath. A small mouse jumped at him and started playing at his back. The lion disliked it. When the mouse reached his paws, he held him a bit tight. The poor small creature squeaked in pain.
‘I’ll kill you now for your disrespect,’ said the lion. The frightened mouse said, ‘I’m sorry, Lord of the Forest. Set me free, please. I may be of some use to you someday.’ The lion laughed and set him free.
One day, the mouse heard the lion crying in pain. He came there and found the lion caught in a net. He kept growing at the net ropes until the lion was out of danger. The lion thanked the mouse. The mouse smiled and said, ‘My Lord, I had already said to you that I might be of some use.’ They both laughed and became fast friends.
Morals:
God has made nothing useless.
A friend in need is a friend indeed.
شیر اور چوہا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں کوئی خوفناک شیر رہتا تھا۔ سردیوں کی ایک دوپہر وہ دھوپ سینک رہا تھا۔ ایک ننھے سے چوہے نے اس پر چھلانگ لگائی اور اس کی کمر پر کھیلنے لگ گیا۔ شیر کو یہ بات پسند نہ آئی جب چوہا اس کے پنجوں تک پہنچا تو اس نے اسے تھوڑی سختی سے دبوچ لیا۔ بے چاری ننھی جان درد سے چیخ اُٹھی۔
’’تمہاری بد تمیزی کی وجہ سے اب میں تمہیں مار دوں گا،‘‘ شیر بولا۔ سہما ہوا چوہا بولا، ’’اے جنگل کے بادشاہ، میں معافی چاہتا ہوں۔ مہربانی فرمائیں اور مجھے رہا کر دیں۔ ہو سکتا ہے کسی دن میں بھی آپ کے کام آؤں۔‘‘ شیر ہنسا اور اسے آزاد کر دیا۔
ایک روز چوہے نے شیر کو درد سے کراہتے سنا۔ وہ وہاں آیا تو شیر کو ایک جال میں جکڑا پایا۔ اس نے جال کی رسیوں کو کترنا شروع کر دیا حتٰی کہ شیر خطرے سے نکل گیا۔ شیر نے چوہے کا شکریہ ادا کیا۔ چوہا مسکرانے لگا اور بولا، ’’میرے آقا، میں نے تو پہلے ہی آپ سے کہا تھا کہ میں بھی کسی کام آ سکتا ہوں۔‘‘ دونوں ہنسنے لگ گئے اور گہرے دوست بن گئے۔
اخلاقی اسباق:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں / خدا نے کچھ بھی بے کار نہیں بنایا۔
دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔
9. A rotten apple among fresh ones
Naheed was a good girl. She made some bad friends in the neighbourhood. It had a bad impact on her. She started misbehaving with her family. Her parents got worried. His father, one day, brought home a hamper of fresh apples. He had bought a rotten apple also. He gave it to Naheed and asked her to place it between the fresh apples. After some days, he requested Naheed to open the hamper in his presence. Naheed was shocked to find that all the apples had rotted. She asked her father the reason. He replied that the fresh apples had rotted in the company of a rotten apple. Her father advised Naheed to make good friends and avoid bad people. Naheed was influenced very much. She left the company of bad friends.
Moral: A man is known by the company he keeps.
تازہ سیبوں کے بیچ ایک گلا سڑا سیب
ناہید ایک اچھی لڑکی تھی۔ پڑوس میں اس نے کچھ بُری لڑکیوں سے دوستی کر لی۔ اس پر اس کا بُرا اثر پڑا۔ اس نے گھر والوں کے ساتھ بد تمیزی شروع کر دی۔ اس کے والدین بڑے فکرمند ہو گئے۔ ایک دن اس کے والد تازہ سیبوں کی ایک ٹوکری خرید کر گھر لائے۔ انہوں نے ایک گلا سڑا سیب بھی خرید لیا۔ یہ انہوں نے ناہید کو دیا اور اسے کہا کہ اسے تازہ سیبوں کے درمیان رکھ دے۔ کچھ دن بعد انہوں نے ناہید کو کہا کہ ان کے سامنے ٹوکری کھولے۔ ناہید کو یہ جان کر دھچکا لگا کہ سارے سیب ہی گل سڑ چکے تھے۔ اس نے اپنے والد سے اس کی وجہ دریافت کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ تازہ سیب ایک گلے سڑے سیب کے ساتھ رہنے سے گل سڑ گئے۔ اس کے والد نے ناہید کو نصیحت کی کہ اچھی اچھی سہیلیاں بنائے اور بُرے لوگوں سے بچ کر رہے۔ ناہید پر بہت اثر ہوا۔ اس نے بُری سہیلیوں کے ساتھ رہنا چھوڑ دیا۔
اخلاقی سبق:
انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ / آدمی کی پہچان ان لوگوں سے ہوتی ہے جن کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا ہو۔
10. The wolf and the lamb
A thirsty wolf was drinking water at a stream in a jungle. A lamb also got a terrible thirst and came to drink water from the downstream. The wolf’s mouth watered at seeing a healthy chubby lamb.
‘Why are you making water unclean for me?’ said the wolf.
The lamb replied, ‘I’m drinking water from the downstream, sir, and cannot make water dirty for you.’
The wolf had no excuse to be angry at the lamb.
‘It must have been your mother then,’ said the wolf.
The lamb replied, ‘My mother is dead, sir. I don’t know if she ever did it.’
‘She did it when she was alive,’ said the wolf, pounced at the poor lamb, and started eating him.
Moral: A tyrant always finds an excuse for his cruelty.
بھیڑیا اور میمنا
ایک پیاسا بھیڑیا جنگل میں ایک ندی سے پانی پی رہا تھا۔ ایک میمنے کو بھی زور کی پیاس لگی تو وہ نیچے بہاؤ کی سمت میں پانی پینے آپہنچا۔ صحت مند موٹا تازہ میمنا دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔
’تم میرے لیے پانی کو گندا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ بھیڑیا بولا۔
میمنے نے جواب دیا ’’جناب، میں تو آپ سے بہاؤ کی سمت میں پانی پی رہا ہوں۔ میں تو آپ کے لیے پانی گدلا کر ہی نہیں سکتا۔‘‘
بھیڑیے کے پاس میمنے پر غصہ کرنے کا کوئی بہانہ نہ تھا۔
’’پھر یہ ضرور تمہاری ماں ہو گی،‘‘ بھیڑیا بولا۔
میمنے نے جواب دیا ’’میری ماں تو مر چکی ہے، جناب۔ میں کیا جانوں کہ اس نے کبھی ایسا کیا ہو۔‘‘
’’جب وہ زندہ تھی تب اس نے ایسا کیا تھا،‘‘ بھیڑیا بولا اور اس بے چارے میمنے پر جھپٹا اور اسے کھانے لگ گیا۔
اخلاقی سبق: ظالم اپنے ظلم کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔
11. The farmer and his sons
Once there was a farmer who had four sons. They were always quarrelling with each other. The farmer tried hard to bring them to the right path but they would never pay attention to his advice. He was very worried about their future.
One day, he worked out a plan. He called his sons and asked them to bring a few sticks. When they brought the sticks, the farmer tied them in a bundle. He then asked them to try their strength to break it.
Each of the sons tried to break the bundle but failed. Then the farmer untied the bundle and gave one stick to each of them to break. Each of them was able to do it easily.
The farmer said, ‘Now you try to understand. If you are united, nobody can get the better of you. But if you keep quarrelling, you will be broken one by one.’
Morals:
Union is strength.
United you stand, divided you fall.
کسان اور اس کے بیٹے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی کسان کے چار بیٹے تھے۔ وہ ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔ کسان نے انہیں سیدھی راہ پر لانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اس کی نصیحت پر کبھی کان نہ دھرتے۔ وہ ان کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان تھا۔
ایک دن اس نے ایک منصوبہ سوچا۔ اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ کچھ لکڑیاں لے آؤ۔ جب وہ لکڑیاں لے آئے تو کسان نے انہیں ایک گٹھے کی طرح باندھ دیا اور انہیں کہا کہ اپنی قوت آزمائیں اور اسے توڑ دیں۔
ہر بیٹے نے گٹھے کو توڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ پھر کسان نے گٹھا کھول دیا اور ہر ایک کو ایک ایک لکڑی توڑنے کو دی۔ ہر ایک نے یہ کام آسانی سے کر دیا۔
کسان بولا، ’’اب تم سمجھنے کی کوشش کرو۔ اگر تم متحد رہو گے تو کوئی بھی تمہیں شکست نہیں دے سکے گا۔ لیکن اگر تم لڑتے جھگڑتے ہی رہے تو ایک ایک کر کے تمہیں توڑ دیا جائے گا۔‘‘
اخلاقی اسباق:
اتفاق میں برکت ہے۔
متحد رہو گے تو مضبوطی سے کھڑے رہو گے، تقسیم ہو جاؤ گے تو گر جاؤ گے۔
12. A bear and two friends
Once two fast friends set out on a journey through a thick forest. In the middle of the forest, they saw a bear rushing towards them. One of them parted and climbed a tree. The other did not know how to climb trees. Before the bear could approach him, he lay down and held his breath. The bear sniffed his nose and took him to be dead. He left them and went away. The other friend also climbed down the tree.
He asked his friend, laughing, ‘What did the bear say in your ear?’
He replied very seriously, ‘The bear said that I should never trust a false friend.’
Moral: A friend in need is a friend indeed.
ریچھ اور دو دوست
ایک دفعہ دو دوست ایک گھنے جنگل میں سے ہوتے ہوئے سفر کے لیے نکلے۔ جنگل کے درمیان میں انہوں نے ایک ریچھ کو اپنی طرف دوڑتے ہوئے دیکھا۔ ان میں سے ایک الگ ہوا اور ایک درخت پر چڑھ گیا۔ دوسرے کو درخت پر چڑھنا نہیں آتا تھا۔ ریچھ کے پہنچنے سے پہلے وہ لیٹ گیا اور دم سادھ لیا۔ ریچھ نے اس کی ناک سونگھی اور اسے مردہ سمجھا۔ وہ انہیں چھوڑ کر چل دیا۔ دوسرا دوست بھی درخت سے نیچے اتر آیا۔
وہ ہنستے ہنستے اپنے دوست سے پوچھنے لگا ’’ریچھ نے تمہارے کان میں کیا کہا؟‘‘
اس نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’ریچھ نے کہا تھا کہ میں کبھی کسی جھوٹے دوست پر اعتبار نہ کروں۔‘‘
اخلاقی سبق: دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔
13. The woodcutter and three axes
In older days, there lived a poor woodcutter near a riverbank. Woodcutting was his bread and butter. One day, he dropped his axe into the river while cutting wood. It made him cry.
Soon, an angel appeared and asked him, ‘What’s the matter?’
The woodcutter told him all that had happened. The angel dived into the river and brought out a gold axe.
‘This is not my axe,’ said the woodcutter.
The angel dived again and brought a silver axe.
‘This isn’t mine either,’ said the woodcutter.
The angel dived for the third time and got an iron axe this time.
‘This is mine,’ exclaimed the woodcutter happily.
The angel was greatly impressed by his honesty. He gave him the other two axes too as a reward for his honesty.
Moral: Honesty is the best policy.
لکڑہارا اور تین کلہاڑے
پرانے وقتوں میں کسی دریا کنارے ایک لکڑہارا رہتا تھا۔ وہ لکڑیاں کاٹ کر اپنی روزی روٹی کماتا تھا۔ ایک روز لکڑیاں کاٹتے ہوئے اس کا کلہاڑا دریا میں جا گرا۔ اس پر وہ رونے لگ گیا۔
جلد ہی ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس سے پوچھا کہ ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘
لکڑہارے نے ساری بات اسے کہ سنائی۔ فرشتے نے دریا میں غوطہ لگایا ور سونے کا کلہاڑا نکال لایا۔
’’یہ میرا کلہاڑا نہیں ہے۔‘‘ لکڑہارا بولا۔
اس نے دوبارہ غوطہ لگایا اور چاندی کا کلہاڑا نکال لایا۔
’’یہ بھی میرا نہیں ہے۔‘‘ لکڑہارا بولا۔
فرشتے نے تیسری بار غوطہ لگایا اور اس بار لوہے کا کلہاڑا نکالا۔
’’یہ میرا ہے۔‘‘ لکڑہارا خوشی سے بولا۔
فرشتہ اس کی ایمان داری سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے دوسرے دو کلہاڑے بھی اس کی ایمان داری کے انعام کے طور پر اسے دے دیے۔
اخلاقی سبق: ایمان داری بہترین حکمت عملی ہے۔
14. The hen that laid golden eggs
Once a greedy man had a hen that laid a golden egg daily. The man would sell the egg in the market and get money. This kept making him richer and richer with every passing day. It also made the man greedier. The man thought, ‘The hen has so many eggs in her belly. Why not get all of them at once and be the richest man in the town?’ At this thought, he slaughtered the hen. He ripped open the belly of the hen to get all the many eggs. He was very depressed to find only one egg. He got unconscious thinking, ‘I will not have golden eggs anymore.’
Morals:
Greed is a curse.
Don’t be greedy.
سونے کے انڈے دینے والی مرغی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لالچی آدمی کے پاس ایک مرغی تھی جو روزانہ سونے کا انڈہ دیتی۔ آدمی اس انڈے کو بازار میں بیچ آتا اور رقم حاصل کر لیتا۔ اس طرح وہ روز بروز امیر سے امیر تر ہوتا گیا۔ اسی بات نے اس آدمی کو زیادہ لالچی بھی بنا دیا۔ اس آدمی نے سوچا، ’’مرغی کے پیٹ میں تو بہت سے انڈے ہیں۔ کیوں نہ انہیں ایک ہی بار میں حاصل کر لوں اور شہر کا امیر ترین آدمی بن جاؤں؟‘‘ اس خیال کے ساتھ اس نے مرغی کو ذبح کر دیا۔ تمام ڈھیر سارے انڈے حاصل کرنے کے لیے اس نے مرغی کا پیٹ چاک کیا۔ صرف ایک انڈہ پا کر وہ بہت افسردہ ہو گیا۔ یہ سوچ کر وہ بے ہوش ہو گیا کہ ’’اب مجھے مزید سونےکے انڈے کبھی نہیں ملیں گے۔‘‘
اخلاقی اسباق:
لالچ ایک لعنت ہے۔
لالچی مت بنیں۔
15. The farmer and the snake
Those were cold winter days. One morning, a farmer found a snake frozen from cold in his form. He took pity and carried the snake to his home. There, he lit a fire and placed the snake near it. The heat of the fire warmed the snake. He started recovering from the cold. The farmer put a bowl of milk near him, which he drank and got energy. In no time, he was healthy and able to move. The farmer was happy and got busy with work near there. The snake moved stealthily to the farmer, bit him and disappeared.
Moral: Nature never changes.
کسان اور سانپ
یہ موسم سرما کے دن تھے۔ ایک صبح ایک کسان نے اپنے فارم میں سردی سے منجمد سانپ پایا۔ اسے ترس آیا اور وہ سانپ کو اٹھا کر اپنے گھر لے آیا۔ وہاں اس نے آگ جلائی اور سانپ کو اس آگ کے قریب ڈال دیا۔ آگ کی تپش نے سانپ کو گرما دیا۔ وہ سردی سے صحت یاب ہونے لگا۔ کسان نے اس کے قریب ایک پیالہ دودھ کا لا رکھا جسے پی کر اسے قوت حاصل ہوئی۔ جلد ہی وہ صحت مند اور چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا۔ کسان خوش ہوا اور قریب ہی کام میں مصروف ہو گیا۔ سانپ چپکے چپکے حرکت کرتا ہوا کسان تک گیا، اسے ڈسا اور غائب ہو گیا۔
اخلاقی سبق: فطرت کبھی نہیں بدلتی۔
16. The shepherd boy
Once there lived a shepherd boy in a small village. He took out his sheep for grazing every day. He would go to a nearby forest. One day he thought of getting into mischief.
He climbed up a tree and shouted, ‘Help! Help! A wolf is coming.’
The villagers rushed to his help. They found no wolf there. The boy laughed at them. He said that he had cried for the sake of fun.
The villagers went back. On another day, he repeated the joke. The villagers again came to help him, but they found no wolf.
One day a wolf actually came there. The boy shouted for help, but no one came to his help. The wolf also killed all his sheep.
Morals:
Once a liar, always a liar.
Nobody believes a liar when he speaks the truth.
Always tell the truth.
Never tell a lie.
ایک گڈریا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی چھوٹے سے گاؤں میں ایک گڈریا لڑکا رہتا تھا۔ وہ ہر روز اپنی بھیڑیں چرانے باہر لے جاتا۔ وہ قریبی جنگل میں چلا جاتا۔ ایک روز اسے شرارت سوجھی۔
وہ ایک درخت پر چڑھ گیا اور چلانے لگا، ’’مدد کرو! میری مدد کرو! بھیڑیا آ رہا ہے۔‘‘
گاؤں کے لوگ دوڑے دوڑے اس کی مدد کو آئے۔ وہاں انہیں کوئی بھیڑیا نہ ملا۔ لڑکا ان پر ہنسنے لگا۔ وہ بولا کہ میں تو مذاق مذاق میں چلا رہا تھا۔
گاؤں والے لوٹ گئے۔ ایک اور روز اس نے اپنا مذاق دہرایا۔ گاؤں والے ایک بار پھر اس کی مدد کو آئے مگر انہیں کوئی بھیڑیا نہ ملا۔
ایک روز ایک بھیڑیا سچ مچ وہاں آ گیا۔ لڑکا مدد کے لیے چلایا۔ کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا۔ بھیڑیے نے اس کی ساری بھیڑوں کو مار دیا۔
اخلاقی اسباق:
ایک بار کا جھوٹا سدا کا جھوٹا۔
جھوٹا شخص جب سچ بھی بولے تو کوئی یقین نہیں کرتا۔
ہمیشہ سچ بولیں۔
کبھی جھوٹ مت بولیں۔
Leave a Reply